ستم کیسا بھی ہو آخر ستم کی ہار ہوتی ہے

ستم کیسا بھی ہو آخر ستم کی ہار ہوتی ہے 
اِسی دنیا میں ظالم پر خدا کی مار ہوتی ہے 

''بَتَرسَ از آہِ مَظلوماں کہ ہَنگامِ دُعا کَردَن،، 
قبولیّت سے اُن کی بد دعا سَرشار ہوتی ہے 

دلِ ویران کی خاطر غریبوں کی مدد کردے
مدد سے سرزمینِ دل گُلِ گلزار ہوتی ہے 

الٰہی! مال جب دینا بڑا سا دل بھی دے دینا 
کہ یوں دل کے بِنا دولت بڑی بیکار ہوتی ہے
 
حقیقت کی زمیں پر چل،سُکوں مل جائے گا ہمدم 
بناوٹ کے فلک پر زندگی دشوار ہوتی ہے

بنی پھرتی ہے جو شاعر چُرا کر اور کی نظمیں
اے راحت! ایسی شخصیّت ذلیل و خوار ہوتی ہے 

نتیجہ فکر: راحت آزاد 
 Whatsap:9731324582

تبصرے

مشہور اشاعتیں