میری تو اپنی اب یہ کہانی بدل گئی
غزل
آئی تھی رت بہت ہی سہانی بدل گئی
میری تو اپنی اب یہ کہانی بدل گئی
اتنی یہ چلبلا کہاں سے پھر یوں آگئی
بچپن کہاں ہے میرا جوانی بدل گئی
راتوں کو نیند اس لیے آتی نہیں مجھے
میری تو اپنی سپنوں کی رانی بدل گئی
جوشاندہ سمجھ کے لے آئی شراب وہ
پیتا شراب کب تھا میں پانی بدل گئی
تھی جد بلوغ پر وہ حداشت ہی بیٹھی کر
آتے ہوئے ادھر ہی وہ آنی بدل گئی
کتنا مجھے ہوا دکھ ہےحدائق میں تھا بنا
بوتل شراب کی وہ اٹھانی بدل گئی
مطعم کبھی تھا اب تو نہیں ایسا کر رہا
دولت یہ ہاتھ آئی روانی بدل گئی
حالات نے ہی ساتھ نہ شہزاد جب دیا
الفت وفا ہی پھر وہ نبھانی بدل گئی
اےبی شہزاد ۔۔۔ میلسی
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں