اترتے ہیں اندر چلو دیکھتے ہیں نعت شریف
اترتے ہیں اندر چلو دیکھتے ہیں
دو کھارے سمندر چلو دیکھتے ہیں
سنو کیا خبر ہاتھ آ جائے موتی
ڈبو کے مقدر چلو دیکھتے ہیں
گئے ہم کو ٹھکرا کے جن کی وجہ سے
جو ہم سے ہیں بہتر چلو دیکھتے ہیں
وہ جن کی طرف سے ملی ہم کو نفرت
محبت کے پیکر چلو دیکھتے ہیں
محبت کی اجرامی گردش سے تارے
گِرے ہیں جو کٹ کر چلو دیکھتے ہیں
ہماری کہانی کے چرچے ہیں ہر سو
ہوئے کتنے مضطر چلو دیکھتے ہیں
خزاؤں نے چھوڑا نہیں ہے کہیں کا
بہاروں کے منظر چلو دیکھتے ہیں
تپسیا محبت کی ہے ایک چِلّہ
گدا کر کے در در چلو دیکھتے ہیں
تجارت کریں آ محبت کی دونوں
بناتے ہیں دفتر چلو دیکھتے ہیں
لگے ہیں جو ہمدم محبت کے در پر
کہاں کے ہیں پتھر چلو دیکھتے ہیں
ذوالفقار ہمدم اعوان
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں