پرانی رنجشیں دل سے مِٹا لیتے تو اچھا تھا
پرانی رنجشیں دل سے مِٹا لیتے تو اچھا تھا
بروزِ عید روٹھوں کو منا لیتے تو اچھا تھا
مبارک عید کی گھڑیاں تجھے دل سے مبارک ہو
دلوں کو ایک دوجے سے مِلا لیتے تو اچھا تھا
فرشتے جھوم جائیں گے تِرے کردار پر بیشک
غریبوں بے بسوں کی گر دعا لیتے تو اچھا تھا
محبت اور چاہت کا سبق سب کو پڑھا دیتے
دلوں سے آگ نفرت کی بجھا لیتے تو اچھا تھا
حقیقت میں تمہاری زندگی کی عید ہو جاتی
برائی سے خودی کو گر بچا لیتے تو اچھا تھا
بھلا ہو ہی نہیں سکتا کدورت سے کسی کا بھی
سبھی شِکوے گِلے اپنے بھلا لیتے تو اچھا تھا
تصدق ! جگمگائے گا تمہارا بخت خوابیدہ
اگر دشمن کو سینے سے لگا لیتے تو اچھا تھا
(تصدق خان رضوی)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں