مجھے اک شخص یہ بتلا رہا ہے
✍️ شاہانہ ناز
مجھے اک شخص یہ بتلا رہا ہے
وہ مجھ کو کھو کے اب پچھتا رہا ہے
اسے میں جس قدر یاد آرہی ہوں
وہ اتنا تلخ ہوتا جارہا ہے
چھپا کر خود سے اپنی کیفیّت
وہ خود سے خود ہی دھوکا کھا رہا ہے
شکستہ ہے درونِ ذات خود بھی
بظاہر وہ مجھے سمجھا رہا ہے
میں اس کی دھڑکنیں سنتی ہوں ایسے
کہ جیسے گیت کوئی گا رہا ہے
ہوں شاہانہ عجب سے مخمصے میں
مجھے ہر سو نظر وہ آرہا ہے
(یہ دو اشعار بھی اس کلام کے ساتھ ہی لکھے
مگر قوافی کی وجہ سے علیحدہ کر دیے)
میسر کی نہیں ہے قدر اس کو
سدا اس کا یہی شیوہ رہا ہے
میں کیسے فیصلہ کرتی ، ہمیشہ
تمہارے ہاتھ میں سکہ رہا ہے
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں